Sunday 7 October 2012

دست شناسی ۔ کیا آپ مانیں گے ؟

ہم سب کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو ہمارے ذہن پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ  جاتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر دست شناسی پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن آج جب میں اپنی گزشتہ زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے اس بات کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ تقدیر کا کھیل ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ کیا تقدیر ہمارے ساتھ جو کرتی ہے اسے دست شناسی کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے ؟ میں اس سوال کے جواب کو اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں ۔ ذاتی طور پور مجھے تین دست شناسوں سے واسطہ پڑا جن کے لیے میں مکمل اجنبی تھا، لیکن انھوں نے نہ صرف میری شخصیت ، میرا علم ، میرا گردوپیش ، میرے دوست احباب  کے بارے میں کچھ ایسے نقاط بتائے جو حیران کن حد تک درست تھے ،  بلکہ میرے گزرے ہوئے ماضی کے بارے میں بتایا ، میرا  حال کیسا جا رہا ہے  اور مستقبل کیا ہوگا، اس کے  بارے میں بھی حیران کن پیش گوئیاں کیں ۔ اپنی زندگی کے ان واقعات کو  زیرِ بحث لانے کی بجائے میں جو واقعہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں ، وہ میرے ایک دوست سلیم کی آپ بیتی ہے ۔ اس واقعے کو ذرا اس کے ہی الفاظ میں سنیے ۔

’’ایک دفعہ میں اپنے والد صاحب کے ایک دوست سے ملنے نتھیا گلی گیا۔ میرے ساتھ میرا ایک دوست حمید بھی تھا۔ والد صاحب کے یہ دوست ایک زبردست پامسٹ تھے اور ان کی اس معاملے میں بہت دور دور تک شہرت تھی ۔ اس کے علاوہ ان کے کچھ اور بھی روحانی معاملات تھے جو وہ فی سبیل اللہ کرتے تھے ۔میرا دوست جو میرے ساتھ تھا ، اسے وہاں پر ہاتھ دکھانے والوں کا مجمع دیکھ کر اشتیاق ہوا کہ وہ بھی ان کو اپنا ہاتھ دکھائے ۔
انھوں نے جب حمید کا ہاتھ دیکھا تو ان کے چہرے پہ حیرت کے آثار نظر آئے ۔ انھوں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ، ’’بیٹا ! کیا آپ ذرا تھوڑی دیر کے لیے دوسرے کمرے میں جاؤ گے ؟‘‘
palmistry
ہاتھ کی لکیریں
حمید کو یہ سن کر قدرے حیرت ہوئی خیر وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا، جو ساتھ ہی تھا۔
اس کے جانے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا، سلیم بیٹا! آپ کا یہ دوست کون ہے؟‘‘
میں نے انھیں بتایا کہ وہ میرا بچپن کا دوست ہے  اور  ہمارے محلے میں رہتا ہے ۔
’’میری زندگی میں آج تک ایسا نہیں ہوا‘‘، انھوں نے مجھ سے کہا ۔
’’ایسی کون سی بات ہے جو آپ نے اس میں دیکھی ہے ؟  میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کا ہاتھ دیکھنے کے بعد آپ کے چہرے کے تاثرات بدل گئے تھے  ۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا۔

’’یہ بات اپنے تک ہی رکھنا ، اسے نہیں بتانا کہ میں نے جو ہاتھ دیکھا وہ ایک زندہ آدمی کا ہاتھ نہیں تھا ۔ میرے گزشتہ تجربے اور دست شناسی کے علم کے مطابق وہ آدمی دنیا سے جا چکا ہے ۔ ‘‘
 ابھی انھوں نے یہ الفاظ منہ سے نکالے ہی تھے کہ اندر سے شوروغوغہ بلند ہوا۔ ہم دونوں ادھر بھاگے تو پتہ چلا کہ میرے دوست حمید کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی ہے ۔ اسے دیکھتے ہی انھوں نے اپنے ایک ملازم کو پانی لانے کو کہا اور ہم سب لوگ جو کمرے میں موجود تھے انھیں کلمہ طیبہ پڑھنے کو کہا۔ یہ سارا منظر آج بھی میری آنکھوں کے آگے گھومتا ہے کہ کس طرح چند منٹ کے اندر میرا دوست ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا ۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ اسے بہت زبردست دل کا دورہ پڑا ہے جس سے وہ جانبر نہیں ہو سکا کیونکہ ہارٹ اٹیک کے بارے میں میری تھوڑی بہت معلومات تھیں ۔

وہ منظر ، وہ واقعہ میں ساری عمر بھلانا بھی چاہوں تو شاید کبھی نہ بھلا سکوں۔‘‘

  

Friday 5 October 2012

چھلاوہ بچہ

ضلع سرگودھا میں رہائش کے دوران شادی سے پہلے میں اکثر صبح صبح جاگنگ کے لیے جایا کرتا تھا ۔ میرے ایک ہمسائے بھی اکثر مجھے ملا کرتے لیکن ان کا راستہ الگ تھا اور وہ فجر کی جماعت سے پہلے نکل جایا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھ سے کہا کہ یار تم وہ قبرستان والی سائیڈ پر تو نہیں جاتے ؟
میں نے جواب دیا، ’’ نہیں ۔‘‘
کہنے لگے ، ‘‘ ہاں یہ بہتر ہے ۔‘‘ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا ۔

’’کچھ دن پہلے جب گرمی زیادہ تھی ، میرے ساتھ ایک عجیب واقع پیش آیا ۔ میں صبح چار بجے گھر سے نکل جاتا ہوں ۔ اس دن میں قبرستان والے روڈ ( یہ ہمارے گھر سے تقریباً 1.5 کلومیٹر دور ہو گا ) پہ واک کر  رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے کسی کے دوڑنے کی آواز آئی ۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ پہلے تو اس طرف اس وقت کوئی آتا نہی تھا، بس اکا دکا گاڑیاں ہی گزرتی تھیں ، یہ کون ہے ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک 8 یا 9 سال کا بچّہ، جو پاؤں سے ننگا اور سر سے گنجا تھا، میرے پیچھے بھاگا چلا آرہا ہے  ۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ بچہ اس وقت کدھر بھاگا جا رہا ہے ۔ جب وہ میرے پاس سے گزرنے لگا تو میں نے اس پوچھا ۔

’’اوئے ، خیر تو ہے ، اس وقت ننگے پاؤں کدھر جا رہے ہو؟‘‘

اس نے منہ موڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر اس کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے چند سیکنڈ بعد وہ میرے سامنے میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ۔
اس دن کے بعد سے میں نے اتنا سویرے جانا چھوڑ دیا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ تم بھی ادھر مت جایا کرو۔‘‘ 

bald runnig child

Thursday 4 October 2012

قبر کی خوشبو

میّت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر عطر چھڑکا جاتا ہے ، گلاب کی پتیاں ڈالی جاتی ہیں اور اگربتیاں لگائی جاتی ہیں ۔ قبرستان میں کسی قبر کے نزدیک سے خوشبو  آنا اس بات کی علامت ہے کہ یا تو قبر نئی ہے یا پھر جیسا کہ عموماً محرّم ، رمضان یا عیدین پر ہوتا ہے ، لوگ جب اپنے پیاروں کی قبر پر جاتے ہیں تو اگربتیاں لگاتے ، گلاب کی پتیاں چھڑکتے ہیں ۔ وقت اور موسم ہر خوبصورت چیز کے دشمن ہیں چاہےوہ انسان ہوں یا پھول ۔ لیکن کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ قبر کو بنائے کئی ماہ گزر جائیں اور نہ صرف اس کی مٹی میں سے ایک انتہائی دلفریب خوشبو آئے جو نہ عطر کی ہو ، نہ لوبان یا کسی اور خوشبو کی تو پھر آپ کیا کہیں گے ؟
صرف یہی نہی بلکہ اس کی خوشبو سے قرب و جوار معطّر ہو جائے ۔ شاید میں اس بات پر یقین نہ کرتا اگر میں نہ خود اس مٹی کو سونگھا نہ ہوتا جو میرے ایک مہربان دوست جو اس واقعے کے راوی ہیں ، نمونے کے طور پر اس مٹی کو اپنے ساتھ نہ لے کر آتے ۔

Fragrant Grave
عطااللہ صاحب گلگت کے رہنے والے ہیں ۔ میرا ان سے رابطہ منقطع ہوئے کم و بیش ۱۲ سال ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے جب مجھے یہ بتایا کہ
’’ ہمارے علاقے میں اس واقعے کی بڑی دھوم تھی کہ ایک بزرگ کے انتقال کے بعد ان کی قبر سے خوشبو آتی ہے جو دور دور تک محسوس ہوتی ہے ، تو میں نے خود تحقیق کی ٹھانی اور اس علاقے میں پہنچ گیا ۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کسی نے بالفرضِ محال جعل سازی کے ذریعیے ، پیسے کمانے ، شہرت حاصل کرنے وغیرہ کی نیت سے یہ کام کیا ہو ، تو میرے خیال میں اس کی کچھ حدود ہوں گی ۔
·        اچھی سے اچھی خوشبو استعمال کرتے ہوئے اگر قبر کی مٹی میں پانی کی جگہ اس کا استعمال کیا جائے تو بھی اس کی خوشبو دور دور تک نہیں جائے گی ۔
·        وقت گزرنے پر اس خوشبو میں لازمی کمی ہوتی جائے گی ۔
·        اس قبر پر دن رات لوگوں کا جمگھٹا رہنے سے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی بعد میں اس پر خوشبو کا چھڑکاؤ کرتا ہو ۔
·        یہ مٹی دو ہفتے سے زیادہ میرے پاس ہے اور اس کی خوشبو میں کوئی کمی نہیں آئی۔‘‘

Wednesday 3 October 2012

پتھر کا آدمی

ماں باپ کی نافرمانی ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اسے کبیرہ گناہوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ والدین کے حقوق اگر ہم ساری عمر کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری سے ادا کرتے رہیں تب بھی ہم کماحقہ اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے ۔
خیبر پختونخواہ کے سنگلاخ پہاڑی علاقے میں ایک ایسا واقع پیش آیا جس کے شاہدین میں سے شاید کوئی ابھی تک بقید ِ حیات ہو ۔ اس  واقعے کے راوی میرے والد صاحب کے ایک پٹھان دوست ہیں جو شاید اب دنیا میں نہ ہوں ۔ لیکن انھوں نے خود جا کر اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھا تھا جو میں آگے بیان کرنے والا ہوں ۔
’’ایک نوجوان کی جب شادی ہوئی تو اس کی بیوی جو اس کی محبت کی شادی کے نتیجے میں اس کے گھر آئی تھی ، اپنی ساس کو سخت ناپسند کرتی تھی ۔ حالانکہ اس کی ساس بہت عبادت گزار اور نیک طینت عورت تھی ۔ شوہر کی کوششوں کے باوجود اس کی بیوی کی تو اس کی ماں سے کیا بننی تھی ، بیوی نے خود بیٹے کو ماں کے خلاف کر دیا ۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقع ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے فرمائیش کرے کہ ماں کو ختم کر دو ۔
شوہر کی عقل کا ماتم کیجئے کہ وہ بیوی کے کہنے میں آگیا اور اس نے اپنی ماں سے بات کر دی ۔ ماں آگے سے کیا کہتی ہے ، یہ بھی سن لیجیئے۔
’’بیٹا میں نے بہت جی لیا ۔ اور جی کے کیا کروں گی اگر تمھاری اور تمھاری بیوی کی خوشی اسی میں ہے تو میں اس کے لیے تیار ہوں ۔ مجھے جیسے چاہو زندگی سے محروم کر دو ۔ ‘‘

شوہر نے بیوی سے صلاح مشور ہ کیا اور یہ طے پایا کہ وہ اپنی ماں کو پہاڑ پر لے جا کر سر پر پتھر مار کر ختم کر  دے اور اور پھر اسے نیچے دھکا دے دے تاکہ سارے یہی سمجھیں کہ وہ حادثاتی موت کا شکار ہو گئی ہے ۔
اگلے دن منصوبے کے مطابق بیٹے نے اپنی ماں کو ساتھ لیا اور اس پہاڑ پر لے گیا جہاں دور دور تک کوئی کسی کی  آمدورفت نہیں تھی ۔ ماں ایک پہاڑی چٹان پر پہنچنے کے بعد نیچے بیٹھ گئی اور اس نے آنکھیں بند کر کے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ بیٹے نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور ماں کے سر پر مارنے کی کوشش کی لیکن نہ مار سکا کیوں؟
جب کچھ دیر گزر گئی اور ماں نے دیکھا کہ بیٹا اسے کیوں نہیں مار رہا ، تو وہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ اس کا بیٹا پتھر کا بن چکا تھا ۔ ایک سٹیچو کی طرح جس نے دونوں ہاتھوں سے ایک وزنی پتھر اٹھایا ہوا تھا۔

ماں نے تو شاید بیٹے کو معاف کر دیا ہو ، لیکن تقدیر نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا ۔  

کیا ایسا ممکن ہے کہ میت پانچ سال تک دفن نہ ہو

جوڑیاں کلاں ضلع سیالکوٹ کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو شہر سے زیادہ دور نہیں ۔ یہ غالباً 1990 کے بعد کی بات ہے ۔ اگرچہ اپنا آبائی علاقہ ہونے کے باعث میرا اکثر وہاں جانا ہوتا تھا ۔ لیکن اس وقت مجھے ایسے واقعات پر یقین نہیں تھا۔ بحرحال بہت سے لوگ اس بات کے شاہد ہیں ۔ آج سے 22 سال پہلے موبائل ، انٹرنیٹ اور TV چینلز یقیناً پاکستان میں نہیں تھے ، اور دنیا میں شاید وہ شروع ہو گئے ہوں ، نہیں تو اتنے عجیب واقعے کی یقیناً میڈیا پہ ضرور کوریج ہونا تھی ۔ بحر حال اس تمہید کے بعد میں اصل واقعے کی طرف آتا ہوں ۔

جوڑیاں کلاں میں اس طرف سے داخل ہوتے ہی، جس طرف سے گاڑیاں شہر سیالکوٹ کی طرف سے آتی ہیں ، ایک بزرگ کا مزار ہے جن کا نام پیر عبدالجبار شاہ ہے ۔ عینی شاہدین کے مطابق پیر عبدالجبار نے اپنے انتقال سے پہلے وصیت کی تھی کہ ان کی میّت کو پانچ سال تک دفن نہ کیا جائے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ اللہ کے پیارے لوگوں کا موت بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ جب وہ فوت ہوئے تو ان کی میت کو ایک الگ کمرے میں رکھ دیا گیا جہاں پر وہ پانچ سال تک پڑی رہی ۔ آپ لوگ اس امر سے بخوبی واقف ہوں گے کہ  کسی بھی انسان کی موت کے بعد اس کے جسم میں گلنے سڑنے کا عمل فوراً شروع ہو جاتا ہے ۔ او رپانچ سال تو ایک بہت طویل عرصہ ہے ۔ لیکن عبدالجبار شاہ کی میت سے ایسے کوئی آثار پورے پانچ سال تک نمودار نہیں ہوئے ۔ مردہ انسانی جسم کی سڑانڈ ناقابلِ برداشت ہوتی ہے لیکن  پیر  صاحب کے کمرے کے باہر کسی قسم کی کوئی بو نہیں تھی الٹا ایک خوشبو آتی تھی ۔  پانچ سال کا عرصہ پورے ہونے کے بعد ان کے مجاورں نے پورے علاقے میں اعلان کر دیا کہ پیر صاحب کو دفنایا جائے گا ۔ جس کسی نے ان کا آخری دیدار کرنا ہے وہ جوڑیاں کلاں پہنچ جائے ۔

یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق پیدل ، ٹریکٹر ٹرالیوں ، گاڑیوں ، غرض جس کو جو چیز میسر تھی ، اس کے ذریعے گاؤں پہنچ گئے ۔ بہت جم غفیر کی وجہ سے لوگوں کو قطار میں لگ کر ان کی میت کو دیکھنا پڑا جو کہ بدنظمی کو روکنے کے لیے ان کے مجاوروں نے انتظام کیا تھا۔ جس کسی نے بھی ان کی میت کو دیکھا وہ اللہ کی قدرت دیکھ کر حیران رہ گیا کہ نعش بالکل اسی طرح تھی جیسے ایک آدمی جس کا انتقال تھوڑی دیر پہلے ہوا ہو ، اس کی ہوتی ہے ۔

شاید کسی اخباری رپورٹر نے ان کی تصویر بھی کھینچی ہو ۔ اگر ایسے کوئی صاحب اس تحریر کو پڑھ رہے ہوں تو ان سے گزارش ہے کہ وہ مجھے میل کر دیں تاکہ واقعے کی مکمل تصویر مع ثبوت لوگوں کے سامنے آ سکے ۔ 
جوڑیاں کلاں گاؤں

سیالکوٹ سے جوڑیاں پہنجنے کا راستہ